دنیا تیز ہے: ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟

دنیا تیز ہے مگر ہماری سانسوں میں دم کیوں نہیں؟

وہ کل کی بات تھی جب ہم "انتظار" جانتے تھے

ابو کی ڈاک کا خط آنے میں پندرہ دن لگتے تھے، مگر آج کا نوجوان واٹس ایپ کا جواب نہ ملنے پر بے چین ہوجاتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے لمحوں کو سکیڑ دیا ہے مگر انسانوں نے اپنے صبر کو کھول دیا ہے۔ کیا یہ ترقی ہے یا ایک نئی قسم کی غلامی؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ 2000 کے بعد پیدا ہونے والی نسل نے "بوفر ٹائم" (انتظار کا وقت) کا تصویر ہی نہیں دیکھا۔ نتیجہ؟ تعلقات میں جلدبازی، کام میں بے چینی، اور فیصلوں میں کمزوری۔

تیز دنیا کا سب سے بڑا شکار: نوجوان ذہن

ٹک ٹاک ویڈیوز کی 15 سیکنڈ والی کلپس نے توجہ کی صلاحیت کو 8 سیکنڈ تک پہنچا دیا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی تحقیق کے مطابق، 72% طلباء اب ایک صفحہ مضمون بغیر موبائل چیک کیے نہیں پڑھ سکتے۔

فاسٹ فیشن سے لے کر انسٹنٹ نیوز تک، ہر چیز ہمیں "جلدی کرو" کا سبق دے رہی ہے۔ مگر قدرت کے اصول بدلے نہیں: درخت اتنے ہی دن میں پھل دیتے ہیں، بچے اتنے ہی مہینے میں چلنا سیکھتے ہیں۔

رفتار کو ہرا دینے کے 3 آزمودہ نسخے

1. شام کی چائے بغیر موبائل کے: روزانہ 40 منٹ کا "ڈیجیٹل صحرا" بنائیں جہاں آپ کتاب، درخت یا پرندوں کو دیکھیں۔

2. پرانی چیزوں کی عزت: ہفتے میں ایک بار کسی اینٹیک شاپ جائیں یا ہاتھ سے لکھا خط پڑھیں۔

3. کام نہ کرنے کی ہمت: دن میں 10 منٹ صرف اس لیے بیٹھیں کہ "میں کچھ نہیں کروں گا"۔ یہ جدید دور کا سب سے بڑا انقلابی عمل ہے۔

کیا ہم واقعی ترقی کر رہے ہیں؟

جاپان میں "کاریوشی" (کام کی زیادتی سے موت) اور سویڈن میں "لاگوم" (معتدل زندگی کا فلسفہ) کے درمیان ایک جنگ چل رہی ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا: کیا ہم مشینوں کی طرح تیز ہونا چاہتے ہیں یا انسانوں کی طرح زندہ رہنا؟

جیسے کہانیوں میں لکھا ہے: "بھاگتے ہوئے کبھی پھول کی خوشبو نہیں ملتی"۔ شاید ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہوا سے آگے نکل جائیں، بلکہ یہ کہ ہوا کے رخ پر چلیں۔

Comments